
استحکامِ خاندان اسلامی معاشرت کی بنیاد اور روح ہے۔ اسلام نے خاندان کو ایک مقدس ادارہ قرار دیا ہے جو انسان کی روحانی، اخلاقی، معاشرتی اور معاشی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ قرآنِ مجید میں میاں بیوی کے تعلق کو سکون، محبت اور رحمت کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے۔ خاندان وہ پہلا مدرسہ ہے جہاں انسان اخلاق، تعاون، صبر، عفو اور عدل سیکھتا ہے۔ ایک مضبوط خاندان صالح معاشرے کی ضمانت بنتا ہے۔ اگر خاندان بکھر جائے تو معاشرہ اپنی اساس کھو دیتا ہے۔ اسلام نے مرد و عورت دونوں کو خاندان کے استحکام میں برابر کا شریک قرار دیا ہے، مرد کو قوام بنایا تاکہ وہ حفاظت، کفالت اور قیادت کرے، جبکہ عورت کو محبت، تربیت اور وفاداری کا محور قرار دیا تاکہ گھر کا ماحول امن و سکون کا گہوارہ بنے۔ والدین کو اولاد کی دینی و اخلاقی تربیت کا حکم دیا گیا ہے اور اولاد کو والدین کی اطاعت و خدمت کی تاکید کی گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں نکاح کو عبادت، طلاق کو ناگزیر صورتوں تک محدود اور عائلی تعلقات کو باہمی مشاورت، عدل اور احسان پر استوار رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ شوہر بیوی کے حقوق ادا کرے اور بیوی شوہر کی عزت و اطاعت کرے تو گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ اسلام نے رشتہ داری کو جوڑنے (صلہ رحمی) پر زور دیا اور قطع رحمی کو سخت گناہ قرار دیا۔ یہ تعلیمات خاندان کو انتشار، بے راہ روی اور بگاڑ سے محفوظ رکھتی ہیں۔ اگر ہر فرد اپنے کردار اور ذمہ داری کو دیانتداری سے نبھائے، تو خاندان میں محبت، اعتماد، اور استقامت پیدا ہوتی ہے۔ ماں باپ کی عزت، بچوں کی تربیت، میاں بیوی کا باہمی احترام، بہن بھائیوں کی یکجہتی، اور بزرگوں کی رہنمائی—یہ سب مل کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتے ہیں جو امن، خیر اور اخلاق کا مظہر بن جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جب خاندان مضبوط رہے، امت متحد اور باوقار رہی، اور جب عائلی نظام کمزور ہوا تو معاشرتی انحطاط نے جنم لیا۔ آج بھی اگر ہم قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے خاندانی ڈھانچے کو ازسرِنو استوار کریں، تو گھروں میں سکون، دلوں میں الفت اور معاشرے میں عدل و توازن بحال ہو سکتا ہے۔ خاندان کا استحکام ہی دراصل امتِ مسلمہ کی بقا، ترقی اور روحانی بلندی کی کنجی ہے۔ یہی پیغام اسلام کا جوہر اور ایک صالح معاشرے کا بنیادی


