:ام ِ یاسمین حسنی
تعلیم :ایم فل
ام ِ یاسمین حسنی جامعۃ المحصنات کوئٹہ کی سابقہ طالبہ ہیں ۔انہوں نے جامعۃ المحصنات کوئٹہ سے عالمیہ تک تعلیم حاصل کی اور بعد میں اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔
موضوع رسالہ :۔المنہج المادی عند فلہا وزن من خلال مؤلفانہ فی السیرۃ النبویۃ
یاسمین حسنی نے اپنے رسالے میں ایک جرمن مستشرق یولیوس فلہاوزن کے اعتراضات کا رد پیش کیا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ” الدولۃ العربین من ظہور السلام ” میں پیش کیا ہے۔انہوں نے یہ کتاب جرمن زبان میں لکھی ہے جسے بعد میں عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے اور یاسمین کا رسالہ عربی زبان میں ہے ۔یہ تقریباً 150 صفحات پر مشتمل ہے ۔ یاسمین حسنی کے سپروائزر سوڈان کے قابل ترین استاد ہیں ۔
حسین بانو:۔
ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھنے والی حسین بانو نےوالدین کے ساتھ ساتھ دادا، دادی کی بھرپور شفقت کا بھی لطف اٹھایا۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مشہور دینی درسگاہ جامعۃ المحصنات میں قدم رکھااور دینی تعلیم سے فراغت کے بعد جامعہ کراچی سے یکے بعد دیگرے اسلامیات اور بین الاقوامی تعلقات ‘‘میں ایم اے کیا۔اعلی تعلیم کے حصول کے اسی جذبہ نے ،حسین بانو کو چین سے نہ بیٹھنے دیا اور انہوں نے فیڈرل اردو یونیورسٹی سےایم فل کیاجس کا موضوع تھا،بین الاقوامی تعلقات میں’’خارجہ پالیسی‘‘۔2016 میں بعنوان ’’نبی ٔ کریم ﷺ کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کے اہم موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔حسین بانو کے تحقیقی مقالے کو بعد میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا ۔2019 میں وزارت مذہبی امور پاکستان کی جانب سے اس کتاب کو سیرۃ النبی ﷺایوارڈ بھی ملا۔
حسین بانو بحریہ کالج سے بطور معلمہ وابستہ ہیں اور علم کے چراغ روشن کرنے میں مصروف ہیں ۔
آسیہ عمران:۔
جامعات المحصنات میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور جامعۃ کی اسی خصوصیت نے آسیہ عمران کے والدین کو متوجہ کیا اور یوں وہ جامعات المحصنات کا حصہ بن گئیں ۔آسیہ عمران کو یہاں کا ماحول اتنا بھایا کہ انہوں نے یہاں سے شہادۃ العالمیہ نمایاں حیثیت میں مکمل کیا اور رابطۃالمدارس میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔آسیہ بطور معلمہ جامعۃ سے وابستہ ہوئیں اور پھر وائس پرنسپل اور پرنسپل کے عہدے تک جا پہنچیں ۔درس نظامی کے ساتھ آسیہ نے جامعہ کراچی سے تعلیم اور بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا اس کے علاوہ مرکز المحصنات کے تحت کرائے جانے والے مختلف کورسز بھی کیے۔” اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کا تقابلی جائزہ” کے موضوع پر ایم فل کیا ۔آج کل آسیہ مرکز المحصنات کے اسکول سسٹم اور شعبہ آن لائن کی منتظمہ کے طور پر کام کر رہی ہیں اور ساتھ ہی پی ایچ ڈی کرنے کی تیاریوں میں ہیں ۔
مریم رب نواز:۔
مریم رب نواز کا تعلق کراچی سے ہے ،دینی ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق انہیں جامعات المحصنات لے آیا ۔ مریم نے رابطۃالمدارس کے تینوں درجوں میں پہلی پوزیشن اپنے نام کرتے ہوئے شہادۃالعالمیہ کی ڈگری حاصل کی پھر جامعہ کراچی سے شعبہ عمرانیات میں ایم اے کیا اور یہاں بھی پہلی پوزیشن حاصل کی اور اب ایم فل کر رہی ہیں ۔ مریم کہتی ہیں المحصنات میں گزارے ہوئے ماہ و سال نے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کی ،ان کی لکھنے اور بولنے کی صلاحیتیوں کو نکھارا اور انہیں تحریک سے جوڑے رکھا ۔مریم کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرنے کے لیے انہیں مرکز المحصنات میں شعبہ تربیت کا حصہ بنایا گیا ہےجہاں وہ نئی طالبات کے لئے نت نئے کورسز ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔
ہاجرہ عزیز احمد :۔
ہاجرہ عزیز احمد کی شروع سے یہی خواہش تھی کہ تعلیم کے ساتھ قرآن کریم کا علم بھی حاصل کیا جائے،یوں ہاجرہ کا نظر انتخاب جامعۃ المحصنات کراچی ٹہری جہاں دینی و عصری علوم بطریق احسن سکھائے جاتے ہیں ،ہاجرہ نے یہاں سے شہادۃالعالمیہ مکمل کیا اور بینظیر بھٹویونیورسٹی سے بی ایڈ کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ہاجرہ کے نزدیک جو چیز جامعات المحصنات کو دوسرے تعلیمی اداروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے یہاں کا ماحول جو تعصبات سے پاک ہے اور اس کا سہرا جاتا ہے تمام تدریسی عملے اور انتظامیہ کو جو ہر طرح کی شدت پسندی کو نا پسند کرتے ہیں ۔ہاجرہ عزیز احمد پی ایچ ڈی کرنے کے ساتھ ساتھ مرکز المحصنات میں اے ای ڈی کے شعبے میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہی ہیں ۔
کہکشاں بنت شبیر:۔
آزاد کشمیر سے تعلق رکھنےوالی کہکشاں بنت شبیر،پانچ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں،اپنے نام کے عین مطابق انہوں نے اپنے تعلیمی سفر میں خوب کامیابیاں سمیٹی ہیں،وہ 2013 میں جامعۃ المحصنات کا حصہ بنیں ۔جامعۃ المحصنات 1990 سے پورے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کا ایک مستند ادارہ ہے۔المحصنات کا حصہ بننے کے بعدمختلف تعلیمی مراحل سے گزرتے ہوئے کہکشاں،2019 میں منعقد ہونے والے رابطۃالمدارس پاکستان کے امتحانات،شہادۃالعالمیہ سال ثانی میں شریک ہوئیں اور پورے پاکستان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔اپنی اس کامیابی پر وہ ،وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کی جانب سے تعریفی شیلڈکی حقدار بنیں ،کہکشاں ،مثال ہیں ان طالبات کے لیے جو اسلامی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے دور حاضر کے تمام تعلیمی تقاضوں کو پورا کر رہی ہیں،کہکشاں دینی اور عصری تعلیم کی بہت حامی ہیں اور آج کل ایک معروف تعلیمی ادارے میں معلمہ کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔
ربیعہ محمود اقبال:۔
کراچی میں رہائش پذیر ربیعہ محمود اقبال کا آبائی علاقہ آزاد کشمیر ہے،سال 20-2019 ربیعہ محمود کو ہمیشہ یاد رہے گاکیونکہ اسی سال انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ ِاردو کے پرائیوٹ امتحانات میں تیسری پوزیشن حاصل کی اور اپنے گھر والوں کا سر ،فخر سے بلند کیا۔ربیعہ محمود نے جامعۃ المحصنات سے 2012 میں اپنا تعلق جوڑا اور 2018 میں شہادۃ العالمیہ مکمل کیا۔ربیعہ کہتی ہیں کہ درس نظامی اور عصری تعلیم کو بیک وقت حاصل کرنے کے جذبے کو مہمیز دینے میں ان کے والد کا بڑا ہاتھ ہے ،وہ مستقل انہیں یہ احساس دلاتے تھے کہ کوئی کام ایسا نہیں جسے اللہ کے کرم سے نا کیا جاسکے۔مطالعے کی شوقین ربیعہ محمود جامعۃ المحصنات میں درس و تدریس سے منسلک ہیں اور دوسری طالبات کے لیےمشعل راہ کا کام کر رہی ہیں۔
خدیجہ الکبری
2013 میں جامعٹہ المحصنات لاڑکانہ سے فارغ التحصیل خدیجہ الکبری، آج کل رفاہ انٹر نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کر رہی ہیں ۔تعلیم کے ساتھ ساتھ خدیجہ بنت عبدالرحمن غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور شرکت کرتی رہی ہیں جس نے ان کی تحریری صلاحیتوں کو خوب پروان چڑھایا اور ان کے مضامین ملکی اخبارات و میگزینز کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔ حال ہی میں انہیں “چھٹی قومی اہل علم کانفرنس ” میں بحیثیت ادیبہ (نمایاں ادبی خدمات ) ادا کرنے پر ایوارڈ دیا گیا جس میں انہوں نے اپنے تاثرات کچھ یوں بیان کیے کہ بے مقصد لوگ بک جاتے ہیں ،جھک جاتے ہیں اور بکھر جاتے ہیں لیکن با مقصد لوگ ڈٹ جاتے ہیں ،بڑے منزلوں کے مسافر چھوٹی رکاوٹوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور نا تھک کر گرتے ہیں ،جب انسان کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو اللہ رب العزت اس کا ہاتھ ،ہمت اور حوصلہ بن جاتے ہیں لہذا کوشش مستقل ہونی چاہیے کیونکہ زندگی نام جہد مسلسل کا ہے ۔
عطیہ باسط
لاڑکانہ کی عطیہ باسط 2014 میں لاڑکانہ جامعہ سے پاس آؤٹ ہوئیں ،اس کے بعد اسلامک انٹر نیشنل یونیورسٹی ، اسلام آباد سے پانچ سال کا شریعہ اینڈ لاء کیا اور اب مسلم فیملی لاء میں ایل ایل بی کر رہی ہیں عطیہ مشکور ہیں لاڑکانہ جامعہ کے تدریسی عملے کی جن کی بھرپور محنت کے باعث شریعہ اینڈ لاء کرنے میں بہت مدد ملی جیسے کہ عربی اور شریعہ کے مضامین ۔یونیورسٹی جوائن کرنے کے ساتھ اسلامی جمیعت طالابات کی ایک فعال رکن ہیں ۔عطیہ باسط آگے جوڈیشری میں جانے کا ارادہ رکھتی ہیں لیکن جامعہ سے اپنے تعلق پر ہمیشہ فخر کرتی ہیں کینکہ جامعہ لاڑکانہ نے انہیں اس قابل بنایا کہ اسلام آباد کی یونیورسٹی میں داخلہ ملا۔
زوبیہ بھٹو:۔
2005 میں جامعہ سے فارغ ہوئی۔فراغت کے بعد اپنے گاؤں میں ذیلی جامعہ کھولا اور ناظرہ کا مرکز قائم کیا جو تاحال جاری ہے الحمداللہ۔اس کے بعد دو سال جامعہ کراچی سے عالیہ کیا جہاں ساتھ ساتھ مرکز المحصنات کی ٹیچرز ٹریننگ بھی چلتی رہی ۔اس کے بعد تین سال جامعہ لاڑکانہ میں ٹیچنگ کی جہاں زندگی کے اتار چڑھاؤ سے بہت کچھ سیکھا جو ایک تحریر میں بتانا ناممکن ہے ۔ٹیچنگ کے دوران ہی جمیعت کی رکنیت مل گئی تھی اس کے بعد ہالا منصورہ میں شادی ہوگئی جہاں شادی کے پانچ مہینے بعد جامعہ المحصنات کا افتتاح ہوا ۔اور وہاں سکینہ باجی اور میں نے جامعہ کا کام شروع کیا ۔تا حال میں جامعہ ہالا منصورہ میں پڑھاتی ہوں اور وہاں کی وائس پرنسپل ہوں ۔
ادیبہ فاطمہ:۔
ادیبہ فاطمہ ، جامعہ آنے سے قبل یونیورسٹی میں سلیکشن ہوگئی لیکن اللہ کی رضا کی خاطر یونیورسٹی چھوڑ کر جامعہ جوائن کر لی اور 2010 میں میڈم صاحبہ کی حوصلہ افزائی اور معلمات کی محنتوں کی وجہ سے خاصہ مکمل کیا ،پھر درس و تدریس سے وابستہ ہوئیں اور ایک ذیلی جامعہ کا آغاز کیا اور فرحانہ کوثر کی رہنمائی میں کئی طالبات کو علم کی روشنی سے منور کیا اور آج وہ اقامت دین کے کاموں میں مصروف ہیں۔
عظمی زہری:۔
اوستہ محمد ،بلوچستان ۔۔2006 میں فارغ ۔۔جامعۃ المحصنات لاڑکانہ
الحمداللہ ،بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتی ہیں ساتھ ہی لکھنے کا شوق بھی رکھتی ہیں ، ملکی اخبارات میں ان کے مضامین گاہے بگاہے چھپتے رہتے ہیں ۔اپنی صلاحیتوں میں نکھار کے لیے عظمی زہری اپنے والدین ،جامعۃ کی معلمات اور انتظامیہ کی مشکور ہیں ۔
ارم حسن :۔
ارم حسن نے 2009 میں بطور معلمہ جامعہ میں شمولیت اختیار کی اور دوران ملازمت خاصہ کی تعلیم مکمل کی اور ترقی پا کر وائس پرنسپل کے عہدے تک جا پہنچیں ۔آج کل قران انسٹی ٹیوٹ حیدر آباد میں بطور پرنسپل اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں اور سندھ اور پنجاب میں ترویج دین کا کام بھی مستقل کر رہی ہیں ۔
حمیرا عمر:۔
قمبر شہر سے تعلق رکھنے والی حمیرا عمر نے جامعہ سے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد مقامی سرکاری اسکول میں عربی کی معلمہ کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں ،حمیرا کا کہنا ہے کہ آج وہ جس مقام پر بھی موجود ہیں اس کا سہرا لاڑکانہ جامعۃ کی انتظامیہ کو جاتا ہے جو اپنی طالبات کی تربیت میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہے۔